الذوالفقار اور ضیاءالحق شہید


جنرل ضیاءالحق شہید پر ایک نہیں کہیں قاتلانہ حملے ہوئے تھے ۔ ان میں سے ایک کا اعتراف آصف بٹ کی شائع ہونے والی سوانح عمری ”کئی سولیاں سرِ راہ تھیں“میں کیا گیا۔ اس کتا ب میں وہ لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔
میر شاہنواز بھٹو ہمارے گوریلا کمانڈر تھے جن کو تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) نے مسلح تربیت دی تھی جبکہ میر مرتضی بھٹولیبیا کے صدر قذافی کی مالی امداد سے کابل میں ہمارے اخراجات برداشت کر رہے تھے۔ آصف بٹ کو کابل میں مرتضی بھٹو نے میزائل کے ذریعے جنرل ضیاءالحق کو قتل کرنے کا حکم دیا ۔ وہ نام بدل کر راولپنڈی آیا اور ایئر پورٹ کے قریب ایک گھر کرائے پر لیا جس کی چھت سے اس نے میزائل داغنا تھالیکن سیر سپاٹے کے شوق میں گرفتار ہو کر پشاور جیل پہنچ گیا۔ یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تو کابل سے حکم ملا کہ بھارت کے راستے سے افغانستان آ جاو ¿۔ موصوف نے نارووال کے قریب سے سرحد پار کرنے کی کوشش کی تو بھارتی فوج نے فائرنگ کر کے بھگا دیا اور کچھ عرصہ بعد گرفتار ہو گئے۔
آصف بٹ لکھتا ہے کہ کہ الذوالفقار نے چوہدری ظہور الہی کو نہیں بلکہ مولوی مشتاق حسین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ 25ستمبر 1981ء کو چوہدری ظہور الہی اپنی گاڑی میں مولوی مشتاق کے گھر ملاقات کے لئے گئے۔ واپس نکلے تو لالہ اسد پٹھان نے گاڑی پر فائرنگ کر دی لیکن مولوی مشتاق بچ گئے اور چوہدری صاحب اپنے ڈرائیور نسیم کے ہمراہ مارے گئے۔ آصف بٹ نے اعتراف کیا ہے کہ میر مرتضی۔ بھٹو کا بھارت سے بھی رابطہ تھا۔ پی آئی اے کا طیارہ پاکستان کے کسی ادارے نے نہیں بلکہ الذوالفقار نے اغوا کرایا تھا ۔
اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 17 اگست1988 کے حادثے میں الذوالفقار کے ملوث ہونے کے بھی ثبوت ملے تھے لیکن بعد ازاں وہ پولیس آفیسر جس نے تفتیش کی تھی اس کو تبدیل کرا دیا گیا اور بعد میں جنرل حمید گل کو بھی آئی ایس آئی سے ہٹا دیا گیا۔ یہ داستان پھر کبھی سہی کہ اس حادثے میں کون کون ملوث تھا۔



Comments

Popular posts from this blog

General Zia-ul-Haq: Examining the Positive Aspects of his Rule in Pakistan

General Zia's warning to Rajeev Gandhi