سقوط مشرقی پاکستان کے اصل حقائق
1994/95 کی بات ہے، ایوان کارکنان پاکستان (لاہور) میں 16 دسمبر کی تقریب تھی، میجر جنرل (ر) رائو فرمان علی جو مشرقی پاکستان کے آخری گورنر اے ایم مالک کے مشیر اور پھر بھارت میں قید رہے تھے، سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و واقعات پر روشنی ڈال رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہم تو یہاں سے ایک ہزار میل دور تھے اور ادھر سے ہم پر عجب عجب فیصلے تھوپے جا رہے تھے۔ یہ بے نظیر زرداری کی دوسری حکومت تھی، سامعین رائو صاحب سے مطالبہ کر رہے تھے کہ آپ کھل کر بتائیں کہ فیصلے کون کر رہا تھا اور وہ بتا نہیں پا رہے تھے۔ اتنے میں ایک صاحب اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’میں بتاتا ہوں کہ فیصلے کون کر رہا تھا۔ میرا نام کرنل محمود ہے اور کرنل سلیم اس بات کے گواہ ہیں کہ جب بھارتی طیارہ گنگا (30 جنوری 1971ئ) کو لاہور ایئر پورٹ پر اتار لیا گیا تو صدر پاکستان جنرل یحییٰ کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر بتایا گیا کہ ایک بھارتی طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر آن اترا ہے۔ اس کا کیا کیاجائے؟ جنرل یحییٰ نے نہایت بے نیازی سے جواب دیا: ’’جائو، بھٹو سے جا کے پوچھ لو‘‘۔ اس پر ہال میں ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔
یاللعجب! صدر پاکستان، آرمی چیف اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یعنی تین اعلیٰ ترین ملکی عہدوں کا مالک ایک ایسے شخص سے فیصلہ طلب کرنے کو کہہ رہا ہے جس کے پاس کوئی ملکی عہدہ نہیں اور وہ محض نومنتخب قومی اسمبلی میں اقلیتی پارٹی کا لیڈر ہے اور ابھی اس نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی نہیں اٹھایا۔ سامعین کو اس سوال کا جواب مل گیا کہ قومی تاریخ کے ان نازک ترین برسوں میں حکومتی باگ ڈور اصلاً کس کے ہاتھ میں تھی اور کون بلانوش شرابی صدر یحییٰ کو اپنے شیطانی مقاصد کے لئے گدھے کی طرح استعمال کر رہا تھا۔ اگلے روز میں نے دو تین بڑے قومی اخبارات دیکھے مگر ایوان کارکنان پاکستان کے جلسے کی رپورٹنگ میں کرنل مذکور کے انکشاف کا ذکر تک نہیں تھا، اس لئے کہ میڈیا کے محبوب لیڈر کی جھوٹی شان میں فرق آتا تھا۔
’’گنگا‘‘ دو کشمیری نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے ہائی جیک کیاتھا۔ اگلی شب ذوالفقار علی بھٹو طیارے کے اندران سے ملے اور پھر اسی شب ایک سازش کے تحت طیارے کو آگ لگا دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ گنگا کی آتش زنی میں بھٹو کا اشارہ اور ایک ایجنسی کا تعاون شامل تھا۔ اس احمقانہ اقدام کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان جانے والے ہمارے طیاروں کو اپنی فضا سے گزرنے کی ممانعت کر دی۔ ہمارے طیارے پھر کولمبو (سری لنکا) کے راستے مشرقی پاکستان جاتے رہے۔ اس طرح ہمارا مشرقی صوبہ ہم سے ڈھائی تین ہزار میل دور ہو گیا۔
وسط فروری میں اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہو گا، لیکن پھر لاڑکانہ پلان کے مطابق بھٹو نے شیخ مجیب اور اس کے چھ نکات کی زور دار مخالفت شروع کر دی۔ اس دوران میں اسلام آباد میں طے کر لیا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا جائے۔ مجیب کو پتہ چلا تو اس نے گورنر ایڈمرل (ر) احسن اور ڈپٹی مارشل لاء، ایڈمنسٹریٹر صاحبزادہ یعقوب خان کی منت کی کہ خدا کے لئے اجلاس ملتوی نہ کریں، اگر ملتوی کرنا ہی ہے تو مجھے نئی تاریخ دے دیں تاکہ میں بنگالیوں کو مطمئن کر سکوں جو پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں کہ فوج اور بھٹو نے منتخب بنگالی قیادت کے خلاف گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ اس پر ایڈمرل احسن اور جنرل صاحبزادہ یعقوب خان اسلام آباد آئے اور شیخ مجیب کا پیغام دیا کہ اگر قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ نہ دی گئی تو مشرقی پاکستان میں شدید ایجی ٹیشن ہو گا جسے فوج بھی کنٹرول نہ کر سکے گی، لیکن بدبخت جنرل یحییٰ نے کہا کہ جا کر بھٹو کو منائو، چنانچہ وہ دونوں سیدھے کلفٹن (کراچی) پہنچے اور کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیا جائے ورنہ وہاں خونریز ایجی ٹیشن ہو گا۔ اس پر بھٹو کا جواب تھا، چند ہزار بونگلوں کے مرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ گویا بنگالی بھٹو کے نزدیک قابل نفرت ’’بونگلے‘‘ تھے جن کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ یہ ساری تفصیل صاحبزادہ یعقوب خاں نے بعد میں ندائے ملت کے ایک انٹرویو میں سنائی۔ انہی دنوں بھٹو نے 28فروری 1971ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے شعلہ بار تقریر کی اور قومی اسمبلی کے اجلاس ڈھاکہ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ارکان ڈھاکہ میں یرغمال ہوں گے، لہٰذا ہم ڈھاکہ نہیں جائیں گے بلکہ جو ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ جیالے صحافی عباس اطہران دنوں روزنامہ ’’آزاد‘‘ میں کام کرتے تھے، انہوں نے بھٹو کی ملک کو دو لخت کرنے کی بنیاد رکھنے والی آتشیں تقریر کو ’’ادھر تم، ادھر ہم‘‘ کی بلیغ سرخی میں سمو دیا جو بھٹو کے ملک توڑنے کے کردار سے چپک کر رہ گئی، دراصل پاکستان اسی روز دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔
اگلے دن اسلام آباد سے اعلان ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے، بھٹو کے سوا مغربی پاکستان سے بیشتر لیڈر ڈھاکہ پہنچ چکے تھے، ان میں پی پی پی کے رکن اسمبلی صاحبزادہ احمد رضا قصوری بھی شامل تھے جو بھٹو کی اس نئی روش کے سخت ناقد تھے اور اسی ’’جرم‘‘ میں چند سال بعد بھٹو صاحب احمد رضا کی ٹانگیں تو نہ توڑ سکے مگر ان کے والد نواب احمد رضا قصوری کو بھٹو کی خصوصی فورس ایف ایس ایف نے شادمان (لاہور) میں ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا اور اس مقدمے میں بھٹو صاحب دیگر ملزموں کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے حکم پر پھانسی پا گئے، خود احمد رضا قصوری اور ان کی والدہ فیڈرل سکیورٹی فورس (FSF) کی فائرنگ میں بچ گئے تھے۔
قصہ کوتاہ، قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوتے ہی پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر مظاہر کرنے لگے۔ دریں اثناء گورنر احسن اور صاحبزادہ یعقوب خان نے استعفا دے دیا تھا۔
ادھر سے بھٹو کے پسندیدہ جرنیل ٹکا خان کو گورنر اور ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر ڈھاکہ بھیجا گیا (جنہیں بعد میں بھٹو نے آرمی چیف اور پھر وزیر دفاع بنایا)، ٹکا خان سے وہاں ہائیکورٹ کے کسی جج نے حلف لینا گوارا نہیں کیا۔ ٹکا خان کے حکم پر ایجی ٹیشن کرنے والے آنسو گیس اور گولیوں کا نشانہ بننے لگے۔ جب معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو پہلے یحییٰ خان اور پھر مسٹر بھٹو ڈھاکہ پہنچے۔
اس دوران میں 14مارچ کو بھٹو بیان دے چکے تھے کہ اس ملک میں دو وزیراعظم ہوں گے، وہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پی پی پی کو اقتدار سونپنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ڈھاکہ میں نئے مذاکرات لاحاصل رہے۔ 25 مارچ کی رات یحییٰ خان آرمی ایکشن کا حکم دے کرچلے آئے۔ اگلے روزبھٹو صاحب کراچی روانہ ہوئے۔ انہوں نے یہاں آ کر کہا: ’’ایسٹ بنگال رجمنٹ کے فوجی بھی چھائونیوں سے فرار ہو گئے، عوامی لیگ کے ایم این اے اور ایم پی اے فرار ہو کر سرحد پار بھارت چلے گئے، فوج نے شیخ مجیب الرحمن اور ڈاکٹرکمال کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان پہنچا دیا۔ ٹکا خان کی فورس نے بنگالیوں کے خلاف گنوں کے منہ کھول دیئے۔ تب بڑی سنگدلی سے ٹکا خان نے کہا تھا، مجھے لوگ نہیں،زمین چاہئے۔ جواب میں بنگالیوں نے بھی ’’پنجابیوں‘‘ اور بہاریوں کا خون بہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس خونریزی کے ذمہ دارکون تھے؟ یقینا یحییٰ خان اور ان کے جرم میں برابر کے شریک مسٹر بھٹو! بنگالیوں نے ٹکا خان کو قصاب (Butcher) کا لقب دے دیا۔ ادھر میجر ضیاء الرحمن نے چٹا گانگ میں اپنے اعلیٰ افسر کو شہید کر کے ریڈیو سے بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا۔ بہاریوں اور مغربی پاکستان کی فیملیز پرغیر انسانی مظالم ڈھائے گئے۔ فوج کو پورے صوبے پر کنٹرول حاصل کرنے کے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگا۔
اندرا گاندھی نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی بنگال کے کیمپوں میں گوریلا تربیت دی۔ نیز بھارتی فوجی سول کپڑوں میں ان کے ہمراہ کئے اور یوں مکتی باہنی تشکیل دے کر انہیں گوریلا جنگ کے لئے مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا۔مکتی باہنی کا کمانڈر کرنل عثمانی تھا۔ اس فورس نے مقامی بنگالیوں کے تعاون سے پاک فوج کو بڑا زچ کیا۔
پاک فوج نے اس کے مقابلے میں البدر اور الشمس تنظیمیں تشکیل دیں۔ اس دوران میں بنگالی ٹکا خان کے خون کے پیاسے تھے۔ ستمبر 1971ء میں انہیں واپس بلا کر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو وہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کربھیجا گیا جبکہ اے ایم مالک کو گورنر مشرقی پاکستان کا منصب دے کر عوامی لیگ کے سوا دیگر جماعتوں کو صوبائی وزارتیں دی گئیں جن میں پی پی پی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور پی ڈی پی شامل تھیں۔ مگر یہ ’’سول‘‘ کابینہ ایک مذاق ثابت ہوئی۔ دوسری طرف اندرا گاندھی کی افواج نے حملے کی بھرپور تیاری کر رکھی تھی۔
عقل و فکر سے عاری اور عیاش صدر جنرل یحییٰ خان قزلباش سے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ عرصے کے لئے ملتوی کرانے اور اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں اٹھنے والے ایجی ٹیشن اور عوامی بغاوت کو دبانے کے لئے آرمی ایکشن کروانے، مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کو سرحد پار بھارت بھجوانے اور شیخ مجیب الرحمن کو مغربی پاکستان کی جیل میں ڈلوانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے لئے میدان خالی تھا۔ آرمی ایکشن شروع ہونے کے بعد انہوں نے کراچی آ کر کہا تھا،’’ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔حالانکہ یہ فوجی کارروائی پاکستان کو توڑنے کا حتمی اقدام تھی۔
اب بھٹو صاحب جرنیلوں سے مطالبہ کر رہے تھے کہ مغربی پاکستان میں اقتدار فوراً پی پی پی کے حوالے کر دیا جائے مگر مشرقی پاکستان میں فوج مکتی با ہنی کے خلاف سول وار میں الجھی ہوئی تھی، جس میں فوج کا جیتنا ناممکن تھا۔ ادھر امریکہ مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے مفاہمت کے لئے یحییٰ خان پر زور دے رہا تھا جسے اندرا گاندھی نے مجیب نگر (کلکتہ) میں ایک طرح سے یرغمال بنا رکھا تھا۔ نیز یحییٰ خان بھٹو کی ’’اجازت‘‘ کے بغیر مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے رابطہ قائم کرنے میں متذبذب تھا۔
اگست 1971ء میں بھارت کا سوویت روس سے فوجی معاہدہ ہو چکا تھا جس کے بعد بھارتی حملے کے خدشات بڑھ گئے تھے۔ ان حالات میں عاقبت نااندیش یحییٰ خان نے منتخب بنگالی قیادت سے مفاہمت کے بجائے مشرقی پاکستان میں گورنر عبدالمطلب مالک کی سربراہی میں ’’سول حکومت‘‘ قائم کر دی جو لاحاصل مشق تھی۔
اس دوران میں بھارتی جرنیل وزیراعظم اندرا گاندھی کو مشورہ دے رہے تھے کہ مشرقی پاکستان پر موسم برسات کے بعد حملہ کر دیا جائے، چنانچہ اندرا اکتوبر میں عالمی سطح پر فضا ہموار کرنے کے لئے دورے پر نکلی۔ واشنگٹن میں صدر نکسن نے اندرا سے پوچھا کہ کیا بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ صاف مکر گئی۔ اس نے دنیا بھر میں مشرقی بنگال پر پاک فوج کے مبینہ مظالم کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔
دریں اثناء جنرل یحییٰ نے مسٹر بھٹو کی ہوس اقتدار پوری کرتے ہوئے انہیں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنا دیا جبکہ مشرقی پاکستان کے بزرگ رہنما اور رکن قومی اسمبلی نور الامین کو برائے نام وزیراعظم کا منصب دیا گیا۔
وزیر خارجہ بن کر بھٹو صاحب ایک وفد لے کر چین گئے۔ ان دنوں چین کے وزیراعظم چو این لائی اور چیئرمین بانی انقلابی رہنما مائوزے تنگ تھے۔ چینی قیادت نے بھی مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے سمجھوتہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ادھر قوم توقع کر رہی تھی کہ روس بھارت فوجی معاہدے کی موجودگی میں پاک چین فوجی معاہدہ ہونے والا ہے مگر جب مسٹر بھٹو بیجنگ سے واپس آئے اور ایئر پورٹ پر ان سے ممکنہ معاہدے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے کہا: ’’پاک چین دوستی کسی فوجی معاہدے کی محتاج نہیں‘‘۔
اس دوران میں 20 نومبر کو بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر تین اطراف سے حملہ کر دیا مگر اسلام آباد نے قوم کو خبر نہ ہونے دی۔ چوتھی جانب سے بھارتی بحریہ نے ناکہ بندی کر لی تھی۔ پاکستان کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بروقت اجلاس بلا کر بھارتی جارحیت کا پردہ چاک کرنے کی بھی زحمت نہ کی۔ خرابی بسیار کے بعد 3دسمبر 1971ء کو اسلام آباد سے اعلان جنگ کیا گیا، حالانکہ اس وقت اعلان جنگ کے بجائے مشرقی پاکستان میں جنگ بندی کی ضرورت تھی۔ بھارت مجیب نگر میں قائم ’’بنگلہ دیش کی عبوری حکومت‘‘ کو پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا۔ ادھر ہمارا میڈیا مارشل لاء گورنمنٹ کے زیر اثر پاک فوج کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا، حالانکہ صورت حال مختلف تھی۔ آخر کار سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا اور وہاں عوامی جمہوریہ چین نے پہلا ویٹو پاکستان کے خلاف قرار داد مسترد کرنے کے لئے استعمال کیا (چین اسی سال اقوام متحدہ کا رکن اور ویٹو پاور بنا تھا۔ اس سے پہلے یہ پوزیشن نیشنلسٹ چین یعنی تائیوان کو حاصل تھی۔)
اب ہمارے وزیر خارجہ بھٹو اقوام متحدہ میں نمائندگی کرنے چلے۔ سلامتی کونسل میں روس کے ایماء پر پولینڈ کی قرارداد جنگ بندی کے لئے پیش کی گئی تھی۔ اس وقت جنگ بندی پاکستان کی اشد ضرورت تھی لیکن بھٹو ایک دو روز فلو کے بہانے ہوٹل میں پڑے رہے۔ پھر سلامتی کونسل میں ایک جذباتی تقریر کرتے ہوئے بظاہر قرار داد کا مسودہ پھاڑ کر واک آئوٹ کر گئے۔ پاکستان کا میڈیا مجموعی طور پر اول روز سے مسٹر بھٹو کے حق میں تھا۔ اس نے بھٹو کے واک آئوٹ اور قرار داد پھاڑنے کو دلیرانہ اقدام ٹھہراتے ہوئے بھٹو کی عظمت کے جھوٹے قصیدے لکھے اور اب تک لکھتا آ رہا ہے۔
مشرقی پاکستان میں ہماری سیاسی اور فوجی پوزیشن بہت نازک ہو چکی تھی، جس سے وزیر خارجہ پوری طرح آگاہ تھے۔ بھارتی جارحیت کو روکنے اور قوم کو بھیانک سقوط سے بچانے کے لئے فوری جنگ بندی درکار تھی مگر بھٹو نے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے بات نہ بننے دی۔ بعد میں بھٹو نے تاثر دیا کہ انہوں نے پولش قرار داد نہیں بلکہ اپنے نوٹس پھاڑے تھے۔ اگر پولش قرارداد تسلیم کر لی جاتی تو اس کے مطابق یہی ہوتا کہ پاک فوج مشرقی پاکستان سے نکال لی جاتی اور وہاں قیام امن کے لئے عالمی فوج آ جاتی۔ نیز اسلام آباد کو مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے سیاسی سمجھوتہ کرنا پڑتا۔ درپیش حالات میں اگر مشرقی پاکستان کی بنگلہ دیش کی صورت میں علیحدگی بھی تسلیم کرنی پڑتی تو کیا برا تھا۔ ہماری 56 ہزار کے لگ بھگ فوج اور تقریباً 36 ہزار سویلین افراد بھارتی قید میں تو نہ جاتے اور سرینڈر کا داغ نہ لگتا، لیکن بھٹو کو اس سے کیا غرض تھی۔ جنگ بندی تسلیم نہ کرنے سے ان کے دو مقاصد پورے ہو رہے تھے:
(1) مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے کسی بھی سیاسی سمجھوتے کو روکنا (اسی لئے تو بھٹو نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونے دیا تھا)۔
(2) فوجی شکست کا اہتمام تاکہ بقیہ پاکستان میں بھٹو کے اقتدار میں جرنیل سر نہ اٹھا سکیں۔
فوج کی ہزیمت بھٹو کی دیرینہ آرزو تھی۔ بھٹو کی طرح سوشلسٹ نظریے کے حامل پاکستانی دانشور اور مصنف طارق علی (سردار سکندر حیات وزیراعظم متحدہ پنجاب کے نواسے) جو لندن میں مقیم ہیں، انہوں نے ایک بار بھٹو سے پوچھا تھا کہ تم نے جنرل ایوب کو 1965ء کی جنگ میں کیوں دھکیلا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا۔ ’’اس بوڑھے سے جان چھڑانے کا میرے پاس اور کیا راستہ تھا‘‘۔
گویا بھٹو نے ایوب کو گمراہ کر کے آپریشن جبرالٹر کے نام سے تین چار ہزار نیم تربیت یافتہ گوریلے مقبوضہ کشمیر میں بھجوا دیئے تھے۔ پھر ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کی ناکامی پر آپریشن گرینڈ سلام کے نام سے پاک فوج نے چھمب اور جوڑیاں پر قبضہ کر کے اکھنور کی طرف یلغار کی تھی جس کے ردعمل میں بھارت نے 6 ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر دیا تھا، مگر قوم سے اصل احوال چھپائے گئے۔ البتہ میڈیا نے بھٹو کے جھوٹے نعروں ’’ہم ایک ہزار سال تک کشمیر کے لئے لڑیں گے‘‘ اور بھارتی کتو! کشمیر سے نکل جائو‘‘ کو اچھال کر نئی نسل کے ذہنوں میں بھٹو کا بت سجا دیا۔ مسلسل جھوٹے پروپیگنڈے سے اس بت کو اب شہادتوں کی لام ڈور بنا دیا گیا ہے۔
قصہ کوتاہ ، 14 دسمبر کو ڈھاکہ میں فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کہہ رہے تھے کہ دشمن میری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتا ہے مگر وہی نیازی 16 دسمبر 1971ء کی سہ پہر کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد اپنا پستول فاتح سکھ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے حوالے کر رہا تھا۔ یہ سانحہ سقوط بغداد (1258ئ) اور سقوط غرناطہ (1492ئ) سے کم نہ تھا۔ اس سے پہلے اسلام آباد کی ہدایت پر گورنر مشرقی پاکستان کے مشیر میجر جنرل رائو فرمان علی کی طرف سے اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل پال مارک ہنری کے نام جنگ بندی تسلیم کرنے کا پیغام بھیجاگیا تھا مگر پھر اسلام آباد نے اس پیغام سے لاتعلقی ظاہر کی اور بھٹو نے نیو یارک جا کر جنگ بندی کی قرار داد مسترد کر دی۔ اس پر گورنر اے ایم مالک مستعفی ہو کر ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل (ڈھاکہ) میں ریڈ کراس کی حفاظت میں چلے گئے۔
وہ بنگال کے ایک شریف اور محب پاکستان مزدور لیڈر تھے اور بھٹو اور یحییٰ کے پیدا کردہ بحران سے پاکستان کو نکالنے کی امید میں گورنر بن گئے تھے مگر وہ بے خبر تھے کہ بھٹو کی مذموم خواہشات حالات کے تند و تیز دھارے میں ڈھل چکی ہیں۔ ستم یہ کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ قوم کے اعصاب پر بجلی بن کر گر چکا تھا مگر یحییٰ خان مدہوشی میں اعلان کر رہے تھے کہ ایک محاذ پر جنگ بندی ہوئی ہے، دوسرے محاذ پر جنگ جاری رہے گی۔ ادھر اندرا گاندھی آزاد کشمیر اور مغربی پاکستان پر زور دار حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی مگر امریکی صدر رچرڈنکسن نے اسے روس کی وساطت سے اس اقدام سے باز رکھا، تاہم بھارتی فوج نے مغربی محاذ پر جنگ بندی سے پہلے کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔
ادھر چیف آف آرمی سٹاف جنرل گل حسن اور ایئر چیف مارشل رحیم نے جنرل یحییٰ خاں پر دبائو ڈالا کہ وہ اقتدار سے بھٹو کے حق میں دست بردار ہو جائیں۔ انہوں نے بھٹو کو پیغام بھیجا کہ فوراً اسلام آباد پہنچیں مگر وہ روم پہنچ کر رک گئے کہ کہیں انہیں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ پھر امریکی یقین دہانی پر وہ اسلام آباد آئے اور یحییٰ خان سے ملکی صدارت اور سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے حاصل کر کے آمر مطلق بن گئے۔ ان کا سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننا تاریخ کا بے مثال حادثہ تھا۔
انہوں نے لاڑکانہ پلان کے تحت مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کو میدان سے ہٹا کر نیا پاکستان بنانے کے لئے وطن عزیز کو دو لخت کروا دیا مگر بھٹو کے دیوانے قلمکار انوار احسن صدیقی ایکسپریس (30 دسمبر 2011ئ) میں لکھتے ہیں: ’’اشرافیہ کی مذموم سازش کے تحت پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا‘‘۔ ہاں یہ ’’پی پی پی کی اشرافیہ‘‘ یعنی زیڈ اے بھٹو اور پی پی پی کے نومنتخب 79 ارکان قومی اسمبلی کی سازش تھی جس میں چند شرابی جرنیل بھی شریک تھے۔ دوسری طرف نذیر ناجی، عباس اطہر اور اس قبیل کے دیگر صحافی سارا ملبہ فوج پر ڈال دیتے ہیں کیونکہ بھٹو کا نام لیں تو ان کی اپنی جھوٹی صحافت کا پردہ فاش ہوتا ہے۔
Comments
Post a Comment