عظیم جنرل کے بارے میں ایک خواب

یہ خواب میرے ایک عزیز دوست نے بھجوایا ہے اور میں اسکو اسی طرح شیر کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔!!


اپنے پہلے اعتکاف کے دوران، نیلم بلاک کی جامع مسجد حنفیہ میں ہمارے ایک معتکف ساتھی یاسین اَنکَل کے والد صاحب مسجدتشریف لائے تھے۔ ان کا نام حاجی حبیب اللہ ہے۔ نہایت نرم گو، نفیس طبع اور عبادت گزار مسلمان ہیں۔ میں ان کو مومن گردانتاہوں۔ چھوٹا قد، سانولا رنگ، باریک آنکھیں، دو مٹھی برابر داڑھی جو رنگ میں دودھ جیسی سفید اور ایک نہایت عمدہ نمازی ٹوپی۔
حاجی حبیب اللہ صاحب کی جیب میں ہر وقت ایک "پاکٹ ڈائری" پڑی ہوتی تھی جس میں وہ فرصت کے لمحوں میں حالتِ مست میں بیٹھ کر نعتِ رسول اور حمدِ باری تعالیٰ تحریر کیا کرتے۔ 
پر اس روز وہ پہلے کی طرح نعت سنانے نہیں بلکہ پاکستان کے متعلق بات کرنے آئے تھے۔ بات یہ ہے حضرات، کہ اللہ ربّ العزت بیشک دلوں کا حال جانتا ہے اور بندے کی نیّت سے خوب واقف ہوتا ہے۔ اعتکاف کے دوسرے روز سے ہی میں نے ایک بابا دوست بنا لیا تھا جو رات دیر كو مسجد آتا تھا اور تحجّد پڑھ کر فجر کے بعد واپس چلا جاتا تھا۔ وہ بھی ایک کمال کا بزرگ تھا پر فی الحال میں یہ بتاتا چلوں کے میں نے صدقِ دل سے دعا مانگی تھی اپنے حجرہ میں، کہ یا اللہ، کوئی بابا ہی بھیج دے گپ شپ کے لیے۔
بس پھر کیا، اللہ نے کہا ذکی میاں، یہ ایک بھیج رہا ہوں تمہارے پاس۔ اگلے روز شام کو حبیب اللہ صاحب کی آمد ہوئی اور میں کونے میں کھڑا چالاک مسکراہٹ سے ہنس رہا تھا اور سوچ رہا تھا، "واہ واہ، بہت خوب اللہ۔ چھا گئے ہو آپ۔ بابے کا بندوبست کردیا اتنی جلد!"۔
اتنی دیر میں حبیب اللہ صاحب بول اٹھے، "جلدی جلدی آجاؤ سارے بچّو میرے پاس۔ اِدھر آجاؤ شاباش۔ آؤ آپ سب کو پاکستان کے بارے میں ایک بات سناؤں، ہیں جی؟"۔
میں اپنے ساتھیوں سمیت فٹا فٹ گول دائرہ بنا کر حاجی صاحب کے گرد بیٹھ گیا، عین ان کے سامنے۔ وہ بولے، "یہ 1984ء کی بات ہے جب ضیاء الحق نے ریفرنڈم کا اعلان کرایا۔ میں اُس آدمی کو پسند کرتا تھا پر اس کے اِس عمل (ریفرنڈم) نے مجھے بدظن کر دیا اور میں نے کہا یہ بے غیرت کون ہوتا ہے ریفرنڈم کر انے والا؟ خیر، دن بھر انہی خیالات کو ذہن میں دہراتے ہوئے میں رات کو سوگیا اور لو جی، خواب میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زیارت ہوئی، ہیں جی؟"۔
میرے اور میرے ساتھیوں کی آنکھیں اور کھلتی گئیں۔ ۔ ۔ 
"مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا روضہ اقدس دکھائی دیا، نور سے بھرا ہوا، اور بائیں ہاتھ پہ ایک جالی لگی ہوئی تھی۔ اس جالی کے ساتھ دو آدمی سَر جھکائے کھڑے ہوئے تھے۔ ایک آدمی پاک فوج کی وردی پہنے، ہاتھ میں چھڑی پکڑے روضہ رسول کے سامنے کھڑا تھا عاجزی کے ساتھ۔ اتنے میں روضہ اقدس سے جنابِ رسول اللہ کی مبارک آواز آئی، "یہ بندہ ضیاء الحق، یہ میرا بندہ ہے۔ میں اس سے بہت خوش ہوں۔ اس نے حدود کا نفاذ کیا اور شریعت کو رائج کیا۔ میں اس سے خوش ہوں"۔
"لو جی بچّو، صبح میں جب اٹھا تو میں نے اپنی غلطی کی توبہ کی اور ضیاء الحق کے لیے اس دن کے بعد سے خوب دعائیں کرتا رہا۔ وہ تو اتنا مقبول ہوا سرکار کی بارگاہ میں، ہیں جی؟"۔ 
یہ کہہ کر حبیب اللہ صاحب کی آنکھیں بھر آئیں تو ہم نے ان سے نعت کی فرمائش کی جو انھوں نے بخوشی پوری کی!

Comments

Popular posts from this blog

General Zia-ul-Haq: Examining the Positive Aspects of his Rule in Pakistan

General Zia's warning to Rajeev Gandhi